جدید فقہی مسائل

  • Admin
  • Nov 15, 2021

کیا غیرمسلم کو خون کا عطیہ دینا جائز ہے؟

جواب:

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

لَا یَنْهٰکُمُ اﷲُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَیْهِمْط اِنَّ اﷲَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَo

اللہ تمہیں اس بات سے منع نہیں فرماتا کہ جن لوگوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں تمہارے گھروں سے (یعنی وطن سے) نکالا ہے کہ تم ان سے بھلائی کا سلوک کرو اور اُن سے عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، بے شک اللہ عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔

اور مزید فرمایا:

اِنَّمَا یَنْهٰکُمُ اﷲُ عَنِ الَّذِیْنَ قٰـتَلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَاَخْرَجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ وَظٰهَرُوْا عَلٰٓی اِخْرَاجِکُمْ اَنْ تَوَلَّوْهُمْج وَمَنْ یَّتَوَلَّهُمْ فَاُولٰٓئِکَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَo

اللہ کریم تو محض تمہیں ایسے لوگوں سے دوستی کرنے سے منع فرماتا ہے جنہوں نے تم سے دین (کے بارے) میں جنگ کی اور تمہیں تمہارے گھروں (یعنی وطن) سے نکالا اور تمہارے باہر نکالے جانے پر (تمہارے دشمنوں کی) مدد کی۔ اور جو شخص اُن سے دوستی کرے گا تو وہی لوگ ظالم ہیں۔

(الممتحنة، 60: 8-9)

مذکورہ بالا آیات کی روشنی میں ہم ان لوگوں سے بھلائی کر سکتے ہیں جو ہمارے ساتھ جنگ نہیں کرتے اور نہ ہی ہمیں گھروں سے نکالتے ہیں یعنی فتنہ فساد نہیں کرتے۔ یہ بھلائی مالی حوالے سے تعاون کرنا بھی ہو سکتی ہے اور دیگر معاملات میں مدد کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے۔ اور فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاط وَمَنْ اَحْیَاهَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًاط

جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد انگیزی (کی سزا) کے بغیر (ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا (یعنی اس نے حیاتِ انسانی کا اجتماعی نظام بچا لیا)۔

(المائدة، 5: 32)

مذکورہ بالا آیت مقدسہ میں مسلم وغیر مسلم کی تقسیم کئے بغیر ناحق انسانی جان کو قتل کرنا، تمام انسانیت کو قتل کرنے اور اس کو بچانا، تمام حیاتِ انسانی کو بچانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا فتنہ پرور غیر مسلموں کے علاوہ باقی کفار کے ساتھ بطورِ انسان بھلائی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

مَرَّتْ بِنَا جَنَازَةٌ فَقَامَ لَهَا النَّبِيُّ وَقُمْنَا لَهٗ، فَقُلْنَا: یَا رَسُولَ اﷲِ، إِنَّهَا جِنَازَةُ یَهُودِيٍّ قَالَ: إِذَا رَأَیْتُمْ الْجِنَازَةَ فَقُومُوا.

ہمارے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو گئے اور آپ کے ساتھ ہم بھی کھڑے ہو گئے۔ ہم عرض گزار ہوئے: یا رسول اللہ! یہ تو کسی یہودی کا جنازہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جایا کرو (خواہ مرنے والے کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو)۔

بخاري، الصحیح، 1: 441، رقم: 1249

مسلم، الصحیح، 2: 660، رقم: 960

اور حضرت عبدالرحمن بن ابو لیلیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سہل بن حُنَیف اور حضرت قیس بن سعد رضی اللہ عنہما قادسیہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اُن کے پاس سے ایک جنازہ گزرا۔ دونوں کھڑے ہو گئے۔ اُن سے کہا گیا کہ یہ تو یہاں کے کافر ذمی شخص کا جنازہ ہے۔ دونوں نے بیان فرمایا:

إِنَّ النَّبِيَّ مَرَّتْ بِهِ جِنَازَةٌ، فَقَامَ فَقِیلَ لَهُ: إِنَّهَا جِنَازَةُ یَهُودِيٍّ، فَقَالَ: أَلَیْسَتْ نَفْسًا؟

(ایک مرتبہ) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے جنازہ گزرا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو گئے۔ عرض کیا گیا: یہ تو یہودی کا جنازہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا یہ (انسانی) جان نہیں ہے؟

بخاري، الصحیح، 1: 441، رقم: 1250

مسلم، الصحیح، 2: 661، رقم: 961

مذکورہ بالا تصریحات کی رو سے امن پسند غیر مسلم کی جان بچانے کی خاطر خون کا عطیہ دینا جائز ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: عبدالقیوم ہزاروی

 

کیا ایس ایم ایس کے ذریعے دی گئی طلاق واقع ہوتی ہے؟

جواب:

اگر شوہر ہوش و حواس میں طلاق دے تو واقع ہو جاتی ہے، خواہ زبانی دی جائے‘ کاغذ پر لکھ کر دے یا ایس ایم ایس کے ذریعے ارسال کرے۔ ایس ایم ایس کے ذریعے دی گئی طلاق بھی اسی طرح معتبر ہے جس طرح زبانی دی گئی طلاق ہے۔ آپ کے مسئلہ میں شوہر نے طلاق کا لفظ تین بار بولا ہے۔ اگر اس نے یہ لفظ تاکید (stress/emphasis) کے لیے تین بار بولا ہے اور وہ حلفاً اس بات کا اقرار کرتا ہے تو شرعاً ایک طلاق واقع ہوئی ہے۔ اس صورت میں دورانِ عدت بغیر نکاح کے رجوع ہو سکتا ہے اور عدت کے بعد تجدیدِ نکاح کے ساتھ رجوع ہوگا۔ لیکن اگر اس تین بار الگ الگ طلاق کا ارادہ کیا تھا تو تین طلاق واقع ہو چکی ہیں اور آپ کا رجوع ممکن نہیں ہے۔

 

کیا ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی حرام ہے؟

جواب:

شریعتِ اسلامیہ اور عقلِ انسانی اس بات پر متفق ہیں ہر وہ عمل جس سے اپنی یا کسی دوسرے کی جان کو خطرہ ہو یا نقصان کا اندیشہ ہو اس کا ارتکاب ممنوع ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلاَ تُلْقُواْ بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ.

اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔

البقره، 2: 194

ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والا ایسے ہی جرم کا ارتکاب کر رہا ہوتا ہے جس میں اس کی اپنی جان جا سکتی ہے یا اس کی وجہ سے کسی دوسرے مسافر کا نقصان ہو سکتا ہے۔ اس لیے ٹریفک قوانین کی پاسداری ضروری ہے تاکہ سڑک ہر ایک کے لیے محفوظ رہے۔ ٹریفک قوانین کی خلاف وزی یا راستوں پر کوئی ایسی حرکت جو راہگیروں کی پریشانی کا باعث ہو‘ جیسے تیز رفتاری، سڑک پر ریس لگانا، خطرناک طریقہ سے اُورٹیک کرنا، بلاضرورت تیز ہارن بجانا، اشارہ توڑنا، غیرقانونی روکاوٹیں کھڑی کرنا، غیرقانونی سپیڈ بریکرز لگانا اور وَن ویلنگ وغیرہ قانوناً جرم اور شرعاً گناہ ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری

 

کیا میک اپ پر وضو ہو جاتا ہے؟

جواب:

اعضائے وضو پر اگر کسی چیز کی تہہ جمی ہو اور پانی جِلد تک نہ پہنچ پائے تو وضو نہیں ہوگا۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاَةِ فَاغْسِلُواْ وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُواْ بِرُؤُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَينِ وَإِن كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُواْ وَإِن كُنتُم مَّرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لاَمَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُواْ مَاءً فَتَيَمَّمُواْ صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُواْ بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ مَا يُرِيدُ اللّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍ وَلَـكِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ.

اے ایمان والو! جب (تمہارا) نماز کیلئے کھڑے (ہونے کا ارادہ) ہو تو (وضو کے لئے) اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں (بھی) ٹخنوں سمیت (دھو لو)، اور اگر تم حالتِ جنابت میں ہو تو (نہا کر) خوب پاک ہو جاؤ، اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم سے کوئی رفعِ حاجت سے (فارغ ہو کر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے قربت (مجامعت) کی ہو پھر تم پانی نہ پاؤ تو (اندریں صورت) پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو۔ پس (تیمم یہ ہے کہ) اس (پاک مٹی) سے اپنے چہروں اور اپنے (پورے) ہاتھوں کا مسح کر لو۔ اﷲ نہیں چاہتا کہ وہ تمہارے اوپر کسی قسم کی سختی کرے لیکن وہ (یہ) چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کردے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دے تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ۔

الْمَآئِدَة، 5: 6

اگر میک اپ میں صرف رنگ ہوں اور وہ اعضائے وضو تک پانی کے پہنچنے میں رکاوٹ نہ ہوں تو میک اپ پر وضو ہو جائے گا۔ لیکن اگر میک اپ کی تہہ جمی ہو جو پانی کو اعضائے وضو کی جلد تک نہ پہنچنے دے تو میک اپ پر وضو نہیں ہوگا۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری

 

موبائل سے قرآن مجید حذف ہونے کا کیا حکم ہے؟

جواب:

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

هَـذَا بَلاَغٌ لِّلنَّاسِ وَلِيُنذَرُواْ بِهِ وَلِيَعْلَمُواْ أَنَّمَا هُوَ إِلَـهٌ وَاحِدٌ وَلِيَذَّكَّرَ أُوْلُواْ الْأَلْبَابِ.

یہ (قرآن) لوگوں کے لئے کاملاً پیغام کا پہنچا دینا ہے، تاکہ انہیں اس کے ذریعہ ڈرایا جائے اور یہ کہ وہ خوب جان لیں کہ بس وہی (اللہ) معبودِ یکتا ہے اور یہ کہ دانش مند لوگ نصیحت حاصل کریں۔

إِبْرَاهِيْم، 14: 52

سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ، رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:

خيرکم من تعلم القرآن وعلمة.

تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآنِ مجید کو خود سیکھے اور دوسروں کو سکھائے۔

بخاری، الصحيح، 4: 1919، رقم: 4739، دار ابنِ کثير اليمامة، بيروت، لبنان

دوسرے مقام پر آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:

بلغوا عنی و لو آية.

میری طرف سے اگر ایک آیت بھی (تمہارے پاس) ہو تو وہ لوگوں تک پہنچاؤ۔

بخاری، الصحيح، 3: 1245، رقم: 3272، دار ابنِ کثير اليمامة، بيروت، لبنان

مذکورہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ قرآن و حدیث کی تعلیمات خود سیکھنا اور دوسروں کو سکھانا بھلائی اور خیر کا کام ہے۔

اچھے معلم کی خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ تعلیم و تعلم کے لیے جدید طریقوں کو بروئے کار لاتا ہے۔ اسی طرح اچھے داعی اور مبلغ کی ضرورت بھی ایسے جدید طریقِ ابلاغ ہیں جن سے پیغام جلد اور سہل انداز میں پہنچایا جاسکے۔ تاکہ اہلِ اسلام، اسلام کی تعلیمات کو سمجھ سکیں اور غیرمسلم، اسلام کا مطالعہ کرسکیں جس سے ان کی اسلام کی طرف رغبت ہو۔

لہٰذا حذف (Delete) ہونے کے خوف سے قرآن و حدیث کو جدید ذرائع ابلاغ سے دور رکھنا ان کی ترویج و اشاعت کو روکنے کے مترادف ہے۔ تمام جدید ذرائع ابلاغ کو استعمال کر کے تعلیماتِ اسلام کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے۔

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔

مفتی: محمد شبیر قادری